حبِ عنید ازقلم واحبہ فاطمہ سلسلہ وار ناول قسط 09
وہ منیہا کو لیے راحیلہ آپی کی جانب جا رہا تھا۔ گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔ وہ اس سے بے نیاز بلکل اجنبی بنی بیٹھی باہر آتی جاتی گاڑیوں اور مناظر کو یوں دلچسپی سے دیکھ رہی تھی جیسے ان سے آہم کوئی چیز ہو ہی نہیں زندگی میں۔ اور یہی بات راحم کو پھر سے اریٹیٹ کر رہی تھی۔
جانے کیوں،،، پر راحم بس یہ چاہتا تھا کہ اس کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف راحم کی ذات ہو۔
تمھاری سٹڈی کا کیا بنا منیہا،،؟ راحم نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا۔
کنٹینیو کر لی ہے میں نے،، جلد ہی یونی جانا شروع کر دوں گی،،، منیہا نے مختصر جواب دیا۔
کوئی ضرورت نہیں،، راحم نے یک دم کہا تو منیہا نے چونک کر اس کی جانب دیکھا ۔ راحم گڑبڑا گیا۔
میرے کہنے کا صرف یہ مطلب تھا کہ پنجاب یونی میں نہیں اب راولپنڈی یونی میں جایا کرنا،، میں مائیگریشن کروا دوں گا،، مما بابا سے بھی بات کر لی ہے میں نے،، جاب اور راولپنڈی میں ملنے والے گھر کی وجہ سے ہمیں ادھر شفٹ ہونا پڑے گا اور اس کے لئے وقت بہت کم ہے،، مما بابا تو بہت خوش ہیں میری جاب سے،،
راحم نے سکون سے بتایا تھا۔ مگر منیہا کے چہرے پر ہوائیاں ضرور اڑیں تھیں۔
مم،،، میں وہاں جا کر کیا کروں گی،، آ،،، آپ چلیں جائیں ناں پلیززز،،، یہاں تو زہرا مما کے ساتھ بزی رہتی ہوں،، حیات پاپا بھی ہیں، ہر ویک امی سے بھی مل لیتی ہوں ،،، وہاں تو بلکل اکیلی پڑ جاؤں گی،،،،
منیہا سچ میں ہی پریشان ہوئی تھی۔ مگر راحم کے پیر بریک پر پڑے تھے اس نے تعجب سے پاس بیٹھی اس پاگل لڑکی کو ملاحظہ فرمایا۔
گاڑی جھٹکے سے رکی تھی۔ منیہا بھی چونکی۔ بے اختیار اس کی جانب دیکھا تو راحم کے ماتھے پر سلوٹوں کے جال دہکھ کر منیہا نے نگاہیں جھکا لیں۔
اب وہ اسے کیا بتاتا کہ اس کے انھیں رشتوں سے تو وہ شدید قسم کی جیلسی اور چبھن سی محسوس کرتا تھا۔ وہ اس کے معاملے میں شاید پاگل پن کی حد تک پوزیسو ہو چلا تھا تبھی تو اسے ان سب سے دور لے کر چلا تھا۔
(کہ منیہا صرف اور صرف راحم ابرک حیات پر انحصار کرنے لائق رہ جائے)
راحم نے منیہا کو کلائی سے تھام کر ایک جھٹکے سے اسے اہنے قریب کیا تھا۔
مجھے لگتا ہے تمھارا دماغ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے منیہا راحم ابرک،، میرے ساتھ ناں گئیں تو مما بابا کیا سوچیں گے ہمارے اس رشتے کے بارے میں،، اور راحیلہ آپی،، وہ کیا سوچیں گی،، اس کے علاوہ بھی تمھیں اپنے شوہر کو چھوڑ کر باقی سب کو اہمیت دیتی ہو،، اس کی وجہ جان سکتا ہوں میں،، وہ غصے سے دھاڑا تھا۔ چند پلوں میں منیہا نے اس کا موڈ غارت کیا تھا۔ اپنی بیوی سے بے وفائی کرنے والا جانے وہ خود غرض شخص اب منیہا سے یہ امید کیوں لگائے بیٹھا تھا کہ وہ اسے اپنے ہر رشتے سے زیادہ مقدم ٹھہرائے۔
منیہا کی جان لبوں پر آئی تھی۔
ایسا کچھ نہیں ہے ،،،،،، جیسا آپ سوچ رہے ہیں،،،،، میں تو بس یہ بول رہی تھی،،،،،،، کہ میں اکیلی ہو جاؤں گی،،،،، منیہا کی گردن کی گھٹلی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔ راحم قریب سے اس کے ٹھہر ٹھہر کر ہلتے یاقوتی لبوں کو قریب سے دیکھ رہا تھا۔
نیچے دئے ہوئے آنلان آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔
إرسال تعليق
إرسال تعليق