Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Novel Episode 05


حبِ عنید ازقلم واحبہ فاطمہ سلسلہ وار ناعل قسط نمبر 05
سب مہمان رخصت ہو چکے تھے۔ انھوںنے کھانا کھایا اور وہ اٹھ کر ناصرہ بیگم کے ساتھ ان کے کمرے میں چلی آئی۔ 

پیچ کلر فش لہنگے میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی۔ وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ہو کر اپنی جیولری ریموو کرنے والی تھی کہ ناصرہ بیگم کی پکار پر اس کے ہاتھ تھمے۔ 

مناہل  
جی پھپھو امی 

اپنے کمرے میں جاؤ بیٹا،،  انھوں نے نرمی سے کہا۔ مناہل کو سانپ سونگھ گیا۔ 

پھپھو امی مجھے ڈر لگ رہا ہے،،  وہ سہمی ہوئی سی بولی تو ناصرہ بیگم کو ہنسی آئی۔ 

کس سے،، انھوں نے بھی اپنے کان سے سونے کے بندے نکالتے پوچھا۔ 

مرتضیٰ بھا
ارے اب تو بھائی مت بولو ،،نکاح مکروہ کرو گی گیا،، ناصرہ بیگم ہنس دیں۔ مناہل پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ 

سوری پھپھو امی،، وہ سرخ ہوئی۔ 
اچھا جاؤ اپنے کمرے میں،،  ناصرہ بیگم نے پھر سے کہا تو ناچار اسے جاتے ہی بنی۔ 

وہ ڈرتی جھجھکتی دروازہ کھول کر بےحد خوبصورتی سے سجائے گئے اس کمرے میں آئی تھی۔ جہاں سے اٹھتی گلابوں کی تازہ میک روح تک کو معطر کر رہی تھی۔ 

کمرہ تو پھولوں سے سجایا گیا تھا مگر خود وہ ایک ڈریکولا تھا۔ وہ سوچتی آگے بڑھی اور اپنی ہی اوچ پر مسکرا دی۔ تھکن اتنی تھی کہ آرام دہ بیڈ پر گرتے ہی نیند کی حسین وادیوں میں اتر گئی یہ جانے بغیر کہ ایک آدم خور ڈریکولا آج کے بعد اس کی نیندیں حرام کر دے گا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

علشبہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کو بغور دیکھ رہی تھی۔ ایسا کیا تھا اس میں کہ پہلو میں بیٹھی اپنی اپسراؤں جیسی بیوی کو چھوڑ وہ مسلسل اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ 

یہ دل بری طرح آج ایک شاندار سی پرسنیلٹی والے مردانہ وجاہت کے شہکار شخص پر فریفتہ ہوا تھا۔ ہر لڑکی کا ارمان ہوتا ہے کہ اسے کوئی چاہے کوئی بہت خاص ۔ کوئی سراہے۔ اس پر فدا ہو۔

 اور وہ تو اسے دیکھ حیرت کے سمندر میں اب تک غوطے زن تھی کہ جو خود اتنا شاندار تھا اس کی نظریں کیسے صرف اسی کے تعاقب میں ہلکان ہو رہی تھیں۔ اور یہ بات اسے آج بہت بہت اچھی لگی تھی۔ پل میں اس کی دل کی تمام تر کیفیات بدل چکی تھیں۔ 

دماغ بہت بری طرح لعن طعن کر رہا تھا اسے۔ وہ اپنی دوست کے شوہر کے بارے میں ایسا سوچ رہی تھی۔ وہ منیہا کا تھا۔ تو کیا وہ بےضمیر چوروں کی طرح اس کے حق پر ڈاکہ ڈالے گی۔ 

اونہوووووووں،،،کیسا حق؟  کونسا حق،، پہلے وہ کونسا اس کا ہے،، وہ تو صرف مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اور مجھے پانے کو اسے سیڑھی بنایا۔ ویسے بھی اگر میں نے اس شادی نا کی تو وہ اسے چھوڑ ہی دے گا تو منیہا کے بھلے کے لئے ہی سہی مجھے یہ قدم تو اٹھانا ہی پڑے گا ناں
ہاہاہاہاہاہہاہاہاہہاہہاہاہہاہاہاہ

وہ خباثت سے معصوم شکلیں بنا کر اپنے دماغ کو تاویلیں پیش کرنے لگی۔

آخر اکلوتی ہونے کی وجہ سے ضدی اور خود سر تو تھی ہی۔ بچپن سے لے کر اب تک جو چاہا وہ پایا۔ تو اب جب دل بری طرح راحم ابرک حیات کا اسیر ہو چلا تھا تو وہ کیوں نہیں؟
نیچے دئے ہوئے آنلان آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔



Related Posts

إرسال تعليق