Jo Tu Na Raha by Saima Bakhtiyar Online Urdu Novel Pdf Free Download. After Marriage Love Story Based Urdu Novel in Pdf Complete Posted on Novel Bank.
جب قسمت کا کھیل شروع ہوتا ہے تو امیر اور غریب کا فرق نہیں رکھتا سب کو ایک ہی چکی میں پسنا ہوتا ہے۔
صفا ابراہیم کراچی یونی ورسٹی کی طالبہ تھی یہ اُس کے ایم بی اے کا پہلا سال تھا وہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی اُس کے لمبے سیاہ بال اُس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا تے وہ ہر جگہ سب سے نمایاں نظر آتی اُس کے کپڑے اُس کی جيولری اُس کی سینڈلز سب کچھ دوسروں سے مختلف اور سادہ ہوتا۔
آج کراچی کا موسم بہت خوشگوار تھا صبح سے ہی ہلکی بوندا باندی جاری تھی صفا کو بارش سے عشق تھا۔
یا اللہ بارش ہو جائے آج تو مزہ ہی آجائے گاڑی کے شیشے نیچے کر کے موسم کا مزہ لیتے ہوئے اُسے دور سے حرا کی گاڑی آتی ہوئی نظر آئی۔
چل حرا پہلے تھوڑا موسم کا مزہ لیتے ہیں پھر کلاس لیں گیں۔گاڑی سے اترتے ہی صفا اُسے کھینچ کر گارڈن کی طرف لے آئی۔
صفا بات تو سنو یار۔حرا اپنی فائل سنبھالتی ہوئی چیخی۔
میں آج کچھ سننے کے موڈ میں نہیں ہوں ہم دونوں کے پروجیکٹس مکمل ہیں سیمسٹر کی بہترین تیاری ہے ایک دن تو انجوئے کا بنتا ہے حرا۔ صفا اپنے بالوں کو چہرے سے ہٹانے لگی جو اب بوندا باندی کی وجہ سے اُس کے چہرے پر چپک رھے تھے۔
زاویار کہاں ہے صفا آج نہیں آیا کیا تمہارا باڈی گارڈ ۔حرا نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔
کوئی گارڈ نہیں ہے میرا بھائی سمجھی وہ تو کلاسز ایک ساتھ ہوتی ہیں تو آتا ہے ساتھ ورنہ ڈرائیور کے ساتھ ہی آتی ہوں۔ صفا کو جھٹ برا لگ گیا ۔
زریاب ابراہیم بابا کے ساتھ بزنس سنبھال رہے تھے وہ سب سے بڑے بیٹے تھے اُن کا رعب بھی بہن بھائیوں پے زیادہ تھا
زوہاب ابراہیم نیورولوجسٹ تھے اور زاويار اِبراھیم ایم بی اے کے لاسٹ سیمسٹر میں تھا صفا ابراہیم کا یہ پہلا سیمسٹر تھا مگر وہ ریلیکس تھی اُس نے بُہت محنت کی تھی اس لیے رزلٹ کی کوئی ٹینشن نہیں تھی۔وہ ایک برائٹ اسٹوڈنٹ تھی۔
فون کہاں گم ہوگیا پچھلے دس مِنٹ سے فون کی گھنٹی بج رہی تھی مگر فون پرس سے باہر آنے کو راضی نہیں تھا۔صفا ادھر دکھاؤ۔حرا نے پرس لے کر ٹیبل پے ہی پلٹا دیا ڈھیروں چیزیں نکل آئیں آخر میں فون برآمد ہوا۔صفا یہ بیگ ہے یہ اسٹور روم اتنا کچرا۔حرا چیزیں سمیٹنے لگی۔ صفا نے حرا کو گھور تے ہوئے کال اٹینڈ کی۔
جی بھائی جی سن رہی ہوں ۔۔۔۔۔ ساتھ ساتھ وہ اپنا سامان بھی بیگ میں ڈال رہی تھی ۔
جی۔۔۔۔۔ بات کرتے ہوئےشیشہ اٹھا کر انگلیوں سے بال سیٹ کیے ۔
فون پرس میں تھا زوہاب بھائی لیکچر ہو رہا تھا اس لیے دیر سے کال اٹینڈ کی۔۔۔۔ صفا کے جھوٹ پر حرا کا منہ کھل گیا۔
جی بھائی جلدی آ جاؤں گی سب ریڈی ہو جائے گا میں ماما کے ساتھ خود سارا انتظام دیکھوں گی آپ فکر نہ کریں۔ اللہ حافظ۔ ۔۔۔۔صفا نے کال اینڈ کرتے ہوئے برگر اٹھایا حرا نے جھٹ برگر چھین لیا ۔
کیا مسئلہ ہے حرا بھوک لگی ہے مجھے۔۔ ۔صفا نے برگر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
پہلے بتاؤ یہ کون سے انتظام کی بات ہو رہی ہے ۔حرا نے آئی برو اُچکای ۔
کون آنے والا ہے بتاؤ بتاؤ ۔حرا برگر دو پہلے میرا پھر بتاتی ہوں۔
لو ٹھونسو پہلے ۔۔۔۔حرا نے ہار مان لی وہ جانتی تھی صفا کی عادت ۔ بنا برگر لیے وہ کچھ نہیں بتا نے والی تھی۔
ہا ہا ہا ہا دیکھا بچے ہار گئیں نہ۔۔۔۔ اچھا سنو بھائی کے ہسپتال کے تمام ڈاکٹرز انوائٹڈ ہیں آج ڈنر پر۔ اُس کی ہی تیاری دیکھنے کو کہہ رہی تھے بھائ۔صفا نے بل چیک کرتے ہوئے تفصیل بتائی۔
اوہ ہو یہ بات ہے ۔۔۔۔تو ڈاکٹر عمر بھی تشریف لائیں گے۔حرا نے معنی خیزی سے اُس کی طرف دیکھا۔۔
بولو صفا صاحبہ بتاؤ مجھے بھی ۔۔ اتنا بلش کیوں ہو رہی ہو اب سمجھ آیا اسی لیے آج محترمہ کا موڈ بُہت اچھا ہے اب آئی سمجھ۔۔ حرا نے اُسے چھیڑا۔
حرا بس چلو بُہت ہوا بل پے کرو گھر جا نا ہے آج جلدی۔ صفا نے بھاگنے میں عا فیت سمجھی ورنہ حرا اُسے عاجز کرنے والی تھی۔
بل اب تم بھرو ۔مجھےجلدی نہیں ہے گھر جانے کی میں آرام سے بیٹھی ہوں ابھی کینٹین میں ۔ حرا نے چیر سے ٹیک لگا لیا۔
بھاڑ میں جاؤ تم۔ صفا بل پے کر کے اپنا سامان لے کر پارکنگ کی طرف بڑھ گئی۔
حرا کھلکھلانے لگی ۔ وہ جانتی تھی صفا ابراہیم کے دل میں ڈاکٹر عمر کی محبت بستی ہے وہ محبت جس سے صفا اور حرا کے علاوہ کوئی واقف نہیں تھا ڈاکٹر عمر جہانزیب بھی نہیں۔۔۔۔
إرسال تعليق
إرسال تعليق