Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Novel Episode 19


Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Online Urdu Novel Episode 19 Posted on Novel Bank.

وہ راحم کے کہنے پہ اب گھر واپس آ گیا تھا۔ رستے میں آتے ہوئے اگر کسی کا خیال دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا تو وہ بس مناہل تھی۔ وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوا تھا۔ وہ بزدل چوہیا اپنے دماغ میں جانے کیا کیا کھچڑی پکا کر بیٹھی ہوگی۔ 

مرتضیٰ بس اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ 

قلب،،،،،،، 
کسی نے پکارا۔ 
اندر لاونج کی جانب بڑھتے ہوئے اسے باریک سی آواز آئی تو وہ چونکا۔ اور جہاں سے اسے پکارا گیا تھا ادھر دیکھا۔ سامنے ہی سیڑھیوں پر ازکیٰ کھڑی تھی۔ 
وہ اس کے بارے میں تو سرے سے بھول ہی گیا۔ 

وہ اس کے پکارنے پر سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔ 
ہممم،، کیا بات ہے،،،؟ لہجہ عجلت بھرا تھا۔ ازکیٰ نے حسرت سے اسے دیکھا۔ 

وہ دراصل مجھے بھوک لگی ہے،، میں نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا تو اگر کھانے کو کچھ مل جاتا تو،، 
وہ اپنے ناخن کھرچتی بولی تھی۔ لہجہ میں زرا بھی جھجھک نہیں تھی۔ بلکہ یوں تھا جیسے اپنا حق مانگ رہی ہو۔ 

مرتضیٰ خواہ مخواہ شرمندہ ہوا تھا۔ یہی سوچا چند دن کی مہمان ہی سہی۔ اسے خود اس کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اور اب تو صبح سے رات ہو چلی تھی۔ اس نے مڑ کر دوبارا اسے پوچھا تم نہیں۔  

تم چلو اوپر میں لاتا ہوں،، مرتضیٰ نے عام سے لہجے میں کہا تھا۔ وہ اوپر چلے گئی۔ مرتضیٰ کچن میں آیا۔ کھانا تو دوپہر سے بنا پڑا تھا شاید۔ مگر کسی نے کھایا ہی نہیں تھا۔ 

اسے مناہل پر غصہ آیا۔ چوہیا۔ پہلے ہی مریل سی ہے اوپر سے اب تخلیق کے مرحلے سے گزرتے خود سے اتنی لاپرواہی۔ تم سے تو میں بعد میں نمٹوں گا چوہیا،،،
دل میں بڑبڑاتے اس نے کھانا ٹرے میں لگایا اور اوپر کی جانب قدم بڑھائے۔ 

وہ کمرے میں سامنے ہی ایک پلنگ پر بیٹھی کسی گہری سوچ میں تھی۔ آہٹ پر نگاہیں سامنے اٹھا کر دیکھیں تو پلٹنا بھول ہی گئیں۔ 

سامنے وہ ڈارک براؤن پینٹ کے اوپر سفید شرٹ میں براؤن لیدر جیکٹ پہنے شاندار سا اس کی دسترس سے بہت دور تھا۔ کاش کھرے کھوٹے کی پہچان کر پاتی تو آج یوں در در نا بھٹک رہی ہوتی۔ حسرتیں دل میں اپنا پھن پھیلانے لگیں تو آنکھیں نم ہو گئیں۔ 

وہ اندر آ کر ٹرے ایک ٹیبل پر رکھ چکا تھا۔ سیدھا ہو کر گلا کھنکارا۔ ازکیٰ چونک کر سیدھی ہوئی۔ اور اپنی خفت مٹانے کو ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ 

تمھاری کزن میرے آنے سے ناخوش ہے شاید،، 
ازکی کا لہجہ خفیف سا تھا۔ 

وہ کزن کیساتھ ساتھ بیوی بھی ہے میری اور میرے ہونے والے بچے کی ماں،، اور میرے معاملے میں یونہی پوزیسو ہے،، میرے سائے پر بھی کسی کا سایہ برداشت نا کرے ،، مرتضیٰ نے سادہ سے لہجے میں اسے بتا کر اچھی طرح باور کروا دیا تھا کہ وہ اپنی نگاہوں کو کنٹرول میں رکھے۔ 
 جبکہ اس کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا۔ 

بہت مبارک ہو،،، 
کچھ لمحوں بعد آخر منہ سے نکل ہی آیا۔ 

بہت شکریہ،، مرتضیٰ نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے۔ 

لیکن اگر تمھیں معلوم تھا کہ وہ اتنی ناراض ہو گی تو مجھے بقول دعا کے اپنے اپارٹمنٹ لے جاتے،،،
ازکی کا اب دم گھٹنے لگا تھا یہاں۔ 

میرا دماغ خراب نہیں محترمہ،، مانا کہ میں اچھا ہوں اور صرف دعا کے لیے یہ سب کر رہا ہوں مگر اتنا بھی نہیں کہ ایک نامحرم کو اکیلے اپنے پرسنل اپارٹمنٹ میں رہنے دوں،، کل کو پھر ہزار طرح کے سوال اٹھتے مجھ پر،، ابھی تم یہاں ہو کیونکہ میری فیملی یہاں ہے،،جن کے بیچ تم بے فکری سے رہ سکتی ہو،، میں جلد ہی تمھارے لیے کچھ اچھا سا بندوبست کر دو گا،،، 
مرتضیٰ نے اس کی ساری غلط فہمی (یا خوش فہمیاں)پل بھر میں دور کیں تھیں۔ 

وہ بول کر نیچے اتر آیا۔ اور اپنے کمرے کی جانب جانے کی بجائے ناصرہ بیگم کے کمرے کی طرف آیا کہ جانتا تھا اسے ناراض ہو کر میکے گھسنے کا دورا پڑتا تھا۔ 

ناصرہ بیگم کے کمرے کے دروازے پر حیرت و بے یقینی سے اس قدم جم چکے تھے جب مناہل کی روتی اور غصے سے بھری ضدی سی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ 

کچھ نہیں کھانا مجھے پھپھو امی کچھ نہیں کھانا بس اپنے بیٹے سے بولیں مجھے طلاق دے دے،،،ابھی کہ ابھی،، نہیں رہنا میں نے ان کے ساتھ،، انھیں بولیں جسے لانا ہے اسے گھر لائیں،، جسے رکھنا ہے رکھیں،، بلکہ اس گھر میں کیوں جتنی دیدہ دلیری سے اس گھر میں لائیں ہیں اسی جرات سے اسے اپنے کمرے میں بھی لے،،،،،،،،،،

بکواس بند کرو مناہل،،، یا چاہتی ہو میں گدی میں سے تمھاری زبان کھینچ لوں،،، 
مرتضیٰ دھاڑا تھا۔ اور اس کی دھاڑ اتنی بلند تھی کہ مناہل اپنی جگہ پر اچھلی تھی۔ 
ناصرہ بیگم نے بے بسی سے دونوں کو دیکھا۔ تحمل، صبر درگزر جیسی کوئی چیز دونوں میں ہی تو نہیں تھی۔ ایک سیر تھی تو دوسرا سوا سیر۔ 

دو تین ڈگ بھر کر ہی وہ اس کے سر پہ پہنچ گیا تھا۔ 
کیا بول رہیں تھیں امی سے ابھی دوبارا مجھ سے کہو،، 
وہ دانت پیس کر غرایا تھا۔ اور وہ جو اس کے نرم و میٹھے لہجے کی عادی ہو چکی تھی۔ اتنے دنوں بعد پھر اسے آدم خور ڈریکولا کے روپ میں سامنے دیکھ مناہل کا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا جیسے۔ تبھی گھٹنوں میں منہ دے کر بے آواز رونے لگی۔ 

مگر کب تک مرتضیٰ نے بازو سے کھینچ کر اسے بیڈ سے نیچے اتارا تھا۔ وہ صدمے سے اسے دیکھے گئی۔ 

مرتضیٰ آرام سے،،، ناصرہ بیگم اس کا جارحانہ انداز دیکھ کر دہل گئیں تھیں۔ مگر وہ زبردستی اسے کمرے سے باہر لاتا چلا گیا۔ 
مرتضیٰ چھوڑیں میرا بازو،، اس نے روتے ہوئے مزاحمت کی۔ جس کا الٹا اثر ہی ہوا۔ کہ وہ زرا سا جھک کر اسے اپنی بانہوں میں بھر چکا تھا۔ 

قلب،،، وہ جھٹپٹائی۔ مگر وہ اسے لئے اپنے کمرے میں ہی آ کر رکا۔ اس کے آنسوؤں کی پرواہ کیے بغیر اسے بیڈ پر اتارا۔ 
ہلنا مت یہاں سے منوو ،، ابھی آتا ہوں میں،، اس نے سنجیدگی سے کہا اور واپس پلٹ گیا۔

نیچے دئے ہوئے آنلائن آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔


Online Reading



Related Posts

إرسال تعليق