Hubb e Aneed by Wahiba Fatima Novel Episode 22


Hubbe Aneed by Wahiba Fatima Online Urdu Novel Episode 22 Posted on Novel Bank.

مرتضیٰ اسے لئے گھر واپس آیا تھا۔ گیٹ پر گاڑی رکی تو ازکی جو جاگ کر ان کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے اوپر سے جھانکا۔ 

مرتضیٰ نے گاڑی بند کی اور اپنی جانب سے اتر کر اس کی جانب آیا۔ مرتضیٰ نے دروازا کھول کر اس کی جانب ہاتھ بڑھایا جو کہ اس نے بری طرح جھٹک دیا۔

ہٹیں پیچھے،، دور رہیں مجھ سے،، میں اپنا خیال رکھ سکتی ہوں،،،
وہ غرا کر بولی تھی۔مرتضی نے اسے گھورا تھا۔  لال انگارا رتجگوں کی غماز آنکھوں میں عجیب سی وحشت اور غیض و غضب تھا۔ سامنے بھی مرتضٰی تھا جو ایک مرتبہ پھر اسے زبردستی ہی سہی بانہوں میں بے بھر چکا تھا۔ 

مرتضیٰ نیچے اتاریں مجھے،، وہ چلائی۔ اور رات کے اس پہر گہرے سناٹے میں اس کی آواز دور دور تک گونجیں۔ 
اوپر بھی وہ سارا منظر من وعن دیکھ رہی تھی۔ انھیں کمرے میں جاتے دیکھا تو دبے قدموں نیچے چلی آئی۔ 
وہ مناہل کو لئے اپنے کمرے کی جانب بڑھا تو مناہل رو پڑی تھی۔ 

مرتضیٰ نیچے اتاریں مجھے،،، مجھے نہیں جانا اس کمرے میں،، وہ سسک پڑی تھی۔ مگر مرتضٰی نے جیسے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی تھی۔ تبھی لا کر اسے بیڈ پر اتارا تھا۔ 

مناہل نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور جھٹکا۔ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ 
دور ہٹیں مجھ سے،،چھونے کی تو جرات بھی مت کرنا آپ،، آئی ہیٹ یو،،، 

مرتضیٰ کی برداشت کی ہر حد پار ہوئی تھی۔ قریب آ کر ہاتھ سے اس کا جبڑا دبوچا تھا۔ 
مجھ سے نفرت کرتی ہو تو پھر درد میں مجھے کیوں پکار رہی تھیں،، اور جب میں پاس آیا تو کیوں سینے سے لگی تھی میرے،، ہاں بتاؤ مجھے،،،

مرتضیٰ کی وحشت بھری نگاہوں میں اتنا اشتعال اور غصہ دیکھ مناہل کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی تھی۔ زبان تالو سے چپک گئی۔۔ 

تمھاری اس سو کالڈ ضد اور ناراضگی کی وجہ سے مناہل اگر میرے بچے کو کچھ ہو گیا تو میں کبھی معاف نہیں کروں گا تمھیں،،، 
وہ لال انگارا نم آنکھیں لیے اب اسے چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا تھا۔ اپنے بال مٹھیوں میں جکڑ کر اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ 

مناہل گھٹنوں میں منہ دے گئی تھی۔ مرتضیٰ اٹھا اور اس کے لیے نیم گرم دودھ لینے کچن میں گیا تھا۔ وہ اس کے لیے دودھ لایا۔ڈود لاک کیا۔ 
 اور میڈیسن نکال کر اس کے سامنے بیٹھا۔ 

یہ میڈیسن لو،،،، لہجہ کافی آکھڑا ہوا سا تھا۔ مگر وہ جانتا تھا اس سے کیسے ڈیل کرنا ہے۔
(اب مناہل کے اپنی ماں کے حصے کے بھی ناز نخرے اسی کو اٹھانے ہوں گے۔ اور خاص طور پر اب جب اسے اس کی دلجوئی کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ 
ہاں مگر اب اس کی یہ خود ساختہ ناراضگی دور کرنے کے لیے اسے تھوڑی بہت سختی کرنی ہی پڑے گی۔)

کیوں،،، کیوں لوں میڈیسن ،، صرف اس لیے کہ آپ کو صرف اپنے بچے کی پڑی ہے،،، وہ پھنکار کر بولی تھی۔ اور اس سارے وقت میں آج ہفتوں بعد وہ کھل کر مسکرایا تھا۔ 

نہیں،،، بچے کی اماں کی بھی پڑی ہے اسی لئے،،، وہ سنجیدگی سے بولا مگر  آنکھوں میں چمک سی تھی۔ 

اسی لئے مجھے کب سے ڈانٹ رہے ہیں مجھ پر غصہ کر رہے ہیں مجھ پر چلا رہے ہیں،،، وہ چٹخ کر بولی۔ 

پیار کرتا ہوں تو تم سے برداشت نہیں ہوتا اور نا ہی اس حالت میں برداشت ہوگا اسی لئے غصّہ کر رہا ہوں،،، وہ سکون سے بولا۔ جبکہ مناہل تلملا اٹھی۔ 

آئی ہیٹ یو،، مجھے زہر لگتے ہیں آپ،،، وہ جھلائی تھی۔ جانتی تھی اب وہ اسے زچ کر رہا ہے خواہ مخواہ۔ 

ہاں مجھے معلوم ہے میں زہر لگتا ہوں تمھیں،،، مگر میں نے سنا ہے تمھیں میری مونچھیں بڑی پسند ہیں ،،،
وہ اطمینان سے بولا تھا۔ 

اونہہہہہہوں،،، وہ تو سب سے زیادہ زہر لگتی ہیں مجھے،، جو سوئیوں کی طرح چبھتی ہیں،،،
وہ بے اختیار بول گئی۔ 
مرتضیٰ نے مسکراہٹ چھپانے کو سر جھکایا تھا۔ جبکہ مناہل سر تا پا لال ٹماٹر ہوئی تھی۔ بول کر اپنا جبڑا بھینچ لیا۔ 

مرتضیٰ نے اس کا چہرہ اپنے سامنے کر کے میڈیسن اس کے منہ میں رکھی اور دودھ کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا۔ جو کہ اب شرافت سے اس نے پی بھی لیا۔ 
وہ اسے میڈیسن دے چکا تو گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔

وہ سسک رہی تھی۔ آج کتنے دن بعد یوں کوئی اس کا خیال رکھ رہا تھا جیسے ناصرہ بیگم رکھتی تھیں۔ مرتضیٰ نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما تھا۔ اور وہ آنسو اپنے لبوں سے چنے۔ 
وہ ایک مرتبہ پھر سے ٹوٹ رہی تھی بکھر رہی تھی۔ اتنے دنوں کا غبار تھا مناہل نے اس کے سینے پر سر رکھا۔ 

قلب،،،، پھپھو امی،،، 
اس کی تان پھپھو امی پر آ کر ٹوٹی تھی۔ مرتضیٰ نے ایک سرد سی آہ بھری۔
میں تمھارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں منوو ،،، مگر بس یہی نہیں کر سکتا کہ تمھاری پھپھو امی کو کہیں سے واپس لے آوں،، وہ بے بسی کی انتہا پر کھڑے ہو کر بولا تھا۔ 
اور اس کا بکھرا وجود خود میں سمیٹ لیا۔ مرتضیٰ اسے لئے بیڈ پر لیٹا تھا۔ اس کا سر اپنے سینے پر رکھا۔ اور اس کی کمر سہلانے لگا۔ 

سو جاؤ منوو،،، تم یہاں ادھر،، اس مقام پر سوؤ گی تو شاید مجھے بھی آج نیند آ جائے،،، 
وہ کرب سے بولا تھا۔ مگر آج اتنے دنوں بعد درد کو بہنے کا رستہ ملا تھا اور وہ روئے جا رہی تھی۔ 
اور مرتضٰی کو پتہ تھا وہ پھر سے اپنی طبیعت خراب کر لے گی۔ 

مرتضیٰ نے اس کی گردن میں منہ دیا۔ اور پرتپش ہونٹوں کا لمس اس کی گردن پر چھوڑنے لگا۔ وہ جو رونے کا شغل فرما رہی تھی مرتضیٰ کی ان گستاخیوں پر لرز کر رہ گئی۔

نیچے دئے ہوئے آنلائن آپشن سے پوری قسط پڑھیں۔


Online Reading 

Related Posts

إرسال تعليق