ابرِ محبتاں ازقلم شمائلہ نور ناول آخری قسط۔
ساون کا، موسم شروع ہوچکا تھا۔۔۔ہر طرف مٹی کی سوندھی سی خوشبو تھی. ۔افق پر بادلوں کا سایہ سورج کو ڈھانپے منظر کو اور نہایت دلکش کر رہا تھا۔۔۔۔۔اس بار بارشیں شروع ہوئیں تو شہر لاہور میں بسنے والے دل والوں کا دل دہلا گئی۔۔ابرِ محبتاں اس بار محبت والوں کے دلوں کے تار چھیڑے جارہی تھی۔۔ مگر ۔کل سے موسم نہایت خوشگوار اور خوبصورت تھا۔۔۔۔۔اسی اثنا میں مالی پودوں کو پانی دینے لگا تو ۔۔اس، نے آواز لگا کر روک لیا، ۔۔۔
بابا۔۔ابھی تو بوندا باری ختم ہوئی ہے۔۔۔سورج کی دیوی کو تو بادلوں نے اپنی آغوش، میں چھپایا ہوا لے ۔۔۔لٰہذا، آج رہنے دیں۔۔ویسے بھی پودے آج نہایت ہی تروتازہ لگ رہے ہیں۔۔۔اس، نے مسکراتے ہوئے۔۔۔۔منع کیا، اور ساتھ ہی ساتھ آگہی بھی کی۔۔۔مالی، بابا، سر کو خم دیتا مسکراتا ہوا چل دیا ۔۔۔شاید عمر کا تقاضا تھا کے پودوں کے حسب نسب کا اندازہ نہ لگا سکے ۔۔۔وہ سر جھٹکتی اندر بڑھ گئی، ۔۔دوپہر کے تین بج رہے تھے۔۔۔مگر باہر تو جیسے شام، کے سائے گہرے ہونے کو تھے۔۔۔
وہ سیڑھیاں طے کرتی اوپر اپنے کمرے میں بڑھ گئی۔۔۔۔
کمرے میں، نیم اندھیرا تھا۔۔زیرو کی بلب کی روشنی سے پورہ کمرہ تاریک تھا۔۔۔
اس نے ٹھنڈی سانس اندر کو کھینچتے ہوئے ۔۔کھڑکیوں سے پردے ہٹا ئے۔۔۔اور ایک نظر بیڈ پر اس اوندھے منہ لیٹے اس وجود پر بھی ڈالی جو کسمسایا، تھا۔۔۔ٹھنڈی ہوا اندر آئی تو وہ مسکرا دی ۔۔۔
لائٹس آن کر کے اس نے الارم کو سیٹ کیا، ۔۔اور خود وارڈروب میں کچھ ڈھونڈنے لگ گئی۔۔۔ تقریباً، دو، منٹ الارم بجا تو وہ ہڑ بڑا کر اٹھ گیا۔۔۔
زوباریہ کی ہنسی، چھوٹ گئی۔۔۔۔
کیا ہے ۔ ۔۔بندہ سکون سے اٹھا دیتا ہے ۔۔یہ کیا نیا طریقہ ہے۔۔۔وہ قدرے خفگی سے بول رہا تھا۔۔۔زوباریہ نے اس، کی کسی بات کا نوٹس نہیں لیا۔۔۔
آپ، کا، بخار اتر چکا ہے جس کو چوبیس گھنٹے ہونے کو ہیں۔۔۔اور ابھی تک سویا جارہا ہے۔۔زرا باہر تو دیکھیں کتنا پیارا موسم ہورہا ہے۔۔۔لوگ اس موسم کو انجوائے کرتے ہیں۔۔۔اور میں کل سے آپ کو دیکھ کر بور ہورہی ہوں۔۔وہ منہ بناتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئی۔۔۔اور پھر اپنی چوٹی کے بل کھولنے لگی. ۔۔۔دانش ان، معاملوں میں تھوڑا سست تھا۔۔۔زرا کچھ ہوا نہیں۔۔۔اور یہ پہلے ہی، بیڈ کے حوالے ۔۔۔ایک ہفتہ ہونے کو تھا اس کو بھی ہاسپیٹل سے چھٹی لیے ہوئے ۔۔۔۔۔بہانہ ہائے فیور کا تھا۔۔۔
اس کی اس طرح، شکوہ کرنے پر دانش حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔
کہیں آپ کا موڈ رومینٹک تو نہیں ہورہا ۔۔وہ اٹھا اور اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔۔۔پینٹ اور بنیان میں ملبوس اس کی پرسنلٹی بہت پرکشش تھی ۔۔۔۔
زوباریہ ہڑبڑا گئی۔۔۔
میرا، وہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔۔آپ جاکر فریش ہوجائیں۔۔۔۔بچوں کے ٹیچر آرہے ہونگے۔۔۔وہ یکدم اٹھی اور واش روم کی جانب جانے لگی ۔۔۔کے دانش نے اس کا، ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔۔اور نتیجا، اس کے سینے سے جالگی ۔۔۔اس کے لمبے کھلے بال اس کے شانوں پر بکھر گئے۔۔۔اتنے سالوں بعد بھی وہ اس کا شرمانا کترانا ویسا ہی تھا۔۔۔دانش کو اس کے اس قدر ہڑبڑاہٹ پر ٹوٹ کر پیار آیا ۔۔۔نیچے دئے ہوئے لنک سے پوری قسط ڈاونلوڈ کریں۔
إرسال تعليق
إرسال تعليق