افسانہ
نوشیبہ الیاس گجرات
ارے وہ دیکھو اب تیسری مخلوق بھی یونیورسٹی پڑھنے آئے گی.....دائم نے قہقہ لگاتے ہوئے سامنے سے آتے ہوئے شخص کا مذاق اڑایا
سب اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے
وہ کمر کو لڑکیوں کی طرح ہلاتے ہوئے ایک ہاتھ ہوا میں لہراتا ہوا آ رہا تھا- سب کے ہنسنے پر اور طنز کرنے پر اس نے معصوم سا منہ بنایا اور نظرانداز کرتا ہوا وہاں سے گزرتا گیا
اس کے ساتھ دو دوست ایک عمر اور ایک ردا دونوں اس کی طرح سب کی باتوں کو نظرانداز کر رہے تھے
ارے یہ لڑکا ہے یا لڑکی, اب یہ آواز لڑکی کی تھی جسکا نام سارا تھا
پھر سے اس کے گروپ میں قہقہے بلند ہوئے تھے
اب عمر اور ردا کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ حذیفہ اپنی لچکدار آواز میں کمر پہ ہاتھ رکھے بولا, چھوڑ دو ان جاہلوں کو منہ نہ لگاؤ آؤ کلاس میں چلتے ہیں
وہ دونوں ساتھیوں کا بازو پکڑے, آگے بڑھ جاتا ہے
************
کلاس میں بیٹھ کر بھی کوئی نہ کوئی جملہ اس پر کسی جا رہا تھا
وہ نہ تو مردوں کی طرح چلتا تھا نہ پوری طرح عورتوں کی طرح, بالوں کا پر بنائے, ماتھے پر ریڈ کلر کی پڑی وہ باندھے رکھتا تھا
وہ بہت خوبصورت تھا- لیکن اسکی چال کی وجہ سے ہر کوئی اسکا مزاق اڑاتا اور دور ہو جاتا
سر کلاس میں آ چکے تھے- انہوں نے سب سے انٹرو لیا جب خزیفہ کی باری آئی تو سر نے کہا سٹینڈ آپ
وہ ادا سے بالوں کی لٹوں کو پیچھے کرتا ہوا کھڑا ہو گیا
سب ہنسنے لگے تو سر نے غصے سے کہا
شٹ اپ ایوری ون
سب خاموش ہو گئے
کیا نام ہے تمہارا.....؟؟؟
خذیفہ,خزیفہ نام ہے میرا اس نے آنکھیں مٹکا کر کہا سر نے بھی عجیب نظروں سے گھورا اسے
سر سارے سوال انگلش میں کر رہے تھے اور سب نے جواب بھی انگش میں دیا تھا سوائے خزیفہ کے
تم انگلش میں جواب کیوں نہیں دے رہے..؟؟
سر انگلش کمزور ہے میری اب اس نے پھر سے کمر پہ ہاتھ رکھ لیا تھا
کلاس روم اس کے جواب پر قہقہوں سےگونجا
انگلش نہیں آتی تو یہاں کیا کرنے آئے ہو؟؟؟
سر سیکھنے ہی تو آیا ہوں مجھے نہیں پتہ تھا آپ سکھانے سے پہلے سوال پوچھتے ہیں
اب سر نے غصے سے کہا نیچے بیٹھو
اوکے سر وہ بیٹھ گیا
*************
مما مجھے یونیورسٹی سب تنگ کرتے ہیں- خذیفہ نے بچوں کی طرح منہ لٹکاتے ہوئے ماں کی گود سر رکھتے ہوئے کہا
مما لوگ کیوں مجھے پسند نہیں کرتے؟
چپ میری جان سب تمہیں پسند کرتے ہیں- تم تو سب سے پیارے ہو, لوگوں کی باتوں کو دل پر نہ لیا کرو کتنی دفعہ کہا ہے
پاپا بھی مجھے پسند نہیں کرتے, کہتے ہیں میں لڑکیوں کی طرح چلتا ہوں میں مرد نہیں لگتا...؟؟
تم مرد ہی ہو حذیفہ, چپ کرو ایسی باتیں نہیں کرتے اٹھو کھانا کھا لو
خزیفہ مما سے بھی ناراض ہو کر کمرے میں چلا گیا
شبانہ آواز دیتی رہی لیکن اس نے ایک نہیں سنی-
وہ خود بہت دکھی ہوتی تھی لوگوں کے رویہ سے بلکہ اسکا شوہر ہی اپنی اولاد سے دور رہتا تھا
رشتہ دار, یونی فیلوز سب اسے تنگ کرتے تھے
وہ حجڑوں کی طرح کمر لچکا کر چلتا تھا جس پہ سب ہنستے
ایسے ہی ایک ہفتہ گزر گیا یونیورسٹی میں آئے ہوئے جب ایک دن, سارا اس کے پاس آئی سارا کے گروپ میں سات لوگ تھے دو لڑکیاں پانچ لڑکے جو بہت بدتمیز اور یونیورسٹی میں اسکینڈل تھے
سارا نے پاس آ کر کہا....حزیفہ میں تم سے بات کرنے آئی ہوں
حزیفہ نے آنکھیں گمائیں, تم مجھ کونسی بات کرنا چاہتی ہو؟
ردا کو تو سرے سے ہی سارا بری لگتی تھی
میں سوری کرنے آئی ہوں- اور اپنا گروپ چھوڑ چکی ہوں
اب تمہاری دوست بننا چاہتی ہوں
کیا تم میری پہلی باتوں کو بھلا کر مجھ سے دوستی کرو گے ؟؟؟
سارا عمر کے ساتھ حزیفہ نے بھی حیرانگی سے دیکھا
میں سچ کہہ رہی ہوں میں بدل چکی ہوں اس نے آنکھوں میں نمی لائی
حزیفہ اپنے بالوں کو پیچھے کرتے ہوئے معصومیت سے بولا....تم رو مت آج سے تم ہم تینوں کی دوست ہو
عمر اور ردا بھی حذیفہ کے لئے چپ ہو گئے اور اسے دوست بنا لیا
************
اب سارا کے گروپ والے سارا پہ بھی طنز کرنے لگے تھے
سارا نے ایک دن حذیفہ سے کہا...سب تمہارا مزاق اڑاتے ہیں میں تمہیں چینج کر دوں گی اور دیکھنا ان لوگوں کے منہ بند ہو جائیں گے
حزیفہ حد سے زیادہ خوبصورت اور معصوم تھا
اس کے بڑے کیے ہوئے سلکی بال جن کو ایک ادا سے ہلاتا بہت پیارے لگتے تھے
حذیفہ کو برا لگا...... میں جیسا ہوں ویسا ہی ٹھیک ہوں
تم سمجھ نہیں رہے حزیفہ میرا وہ مطلب نہیں ہے تم مجھے برے نہیں لگتے لیکن میں چاہتی ہوں تم خود کو لے کر کسی گلٹ میں نہ رہو... عمر کے کہنے پر حزیفہ مان گیا....البتہ ردا نا خوش تھی
سارا روزانہ حزیفہ کو ایک الگ روم میں یا کبھی اپنے گھر لے جاتی وہاں جا کر اسے بتاتی کہ ہاتھ نہ ہلایا کرو کمر سیدھی رکھا کرو...حزیفہ ایک دن تو رونے لگا کہ مجھ سے نہیں ہوتا
لیکن سارا نے ہمت نہیں ہاری, وہ روزانہ چائے سے بھرا مگ اس کے سر پہ رکھتی اور پھر کہتی یہ گرنا نہیں چاہیے وہ اس مگ کو بچانے کے لئے سیدھا چلتا نہ ہاتھ کمر پہ رکھتا نہ ہاتھ کو ہوا میں لہراتا
حزیفہ کی ماں بہت خوش تھی وہ سارا سے ملی تھی ان کے گھر جا کر....ان کو خوشی ہوئی تھی کہ اتنی پیاری اور اچھی لڑکی حزیفہ کو پسند کرتی ہے
ایک ماہ میں وہ اسے اچھی طرح چلنا سکھا چکی تھی
حزیفہ بہت خوش تھا اور وہ زیادہ وقت سارا کے ساتھ ہی گزارتا کیونکہ سارا نے کہا تھا کہ وہ اسے پسند کرتی ہے.....اور اب حزیفہ بھی اسے پیار کرنے لگا تھا
ردا کو سن کر بہت برا لگا جب ایک دن حذیفہ نے کہا کہ وہ صبح یونیورسٹی جائے گا
وہ پورا ایک ماہ یونی سے آف پر تھا کیونکہ وہ سارا سے چلنا سیکھ رہا تھا
*************
صبح اٹھا مما کو گلے لگایا اب اس کے پاپا بھی خوش تھے کہ نارمل انسانوں کی طرح چلنے لگا ہے
اس نے ایک پھول لیا اور گنگناتا ہوا باہر نکل گیا
بال وہ چھوٹے کروا چکا تھا پٹی ماتھے سے اتار چکا تھا
وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا
یونیورسٹی کے گیٹ کو عبور کرتے ہی ہر کسی کی نگاہ اس پر تھی..... لڑکیوں کے منہ سے ایک آواز آ رہی تھی
واوووووو...... وہ مسکراتا ہوا کسی ہیرو کی طرح چل رہا تھا بلیک جینز پہ وائٹ شرٹ پہنے نیچے جوگرز, لڑکیاں کیا لڑکے بھی آج پوری آنکھیں کھولے بس اسی کو دیکھ رہے تھے
وہ مسکراتے ہوئے جا رہا تھا جب اس کی نظر سارا پر پڑی
وہ اپنے پہلے گروپ میں کھڑی اپنے دوست بلاول کے ہاتھ پہ ہاتھ مارتی ہنس رہی تھی
حزیفہ کے قدم آہستہ ہوئے لیکن وہ ان کے قریب چلتا جا رہا تھا
پاس پہنچ کر رک گیا.....سارا نے جنید سے کہا جو دوست ہی تھا, لاؤ میرے پیسے.....؟؟؟
میں شرط جیت چکی ہوں تم لوگوں نے کہا اس حجڑے کو انسان بناؤ اور اپنے پیار میں پاگل کرو اور وہ ہو چکا ہے ابھی آتا ہوگا مجھے پروپوز کرنے
ان میں سے کسی ایک کی نظر حریفہ پہ پڑی تو بولتا ہوا چپ کر گیا
ارے کیا ہوا.....سارا نے مڑ کر دیکھا تو حذیفہ تھا
سارا ہکا بکا رہ گئی یوں اچانک وہ سب کچھ سن لے گا
حزیفہ آگے آیا سارا کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ حزیفہ نے زور دار تھپڑ سارا کے منہ پر مارا
آس پاس سبھی متوجہ تھے
سارا شرم سے پانی پانی ہو چکی تھی
حزیفہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے روتا ہوا نکل آیا
دوڑتے دوڑتے گھر پہنچا..... آتے ہی اسکی حالت خراب ہو چکی تھی-
مما وہ جھوٹی تھی.... مما اس نے چیٹ کیا ڈمب کیا مما.... وہ روتا ہو چلاتا اپنے آپ کو مارتا اسکی ماں روتی کیا نہ کرتی, ڈاکٹر کو بتایا تو وہ کہہ چکے تھے یہ پاگل ہو چکا ہے
اس کے پاپا تنگ آ کر اسے پاگل خانے چھوڑ آئے ماں تو جیسے حتم ہی ہو گئی تھی- ردا اسے ساری کہانی بتا چکی تھی- اسے یقین نہ آیا کہ سارا ایسی لڑکی ہو سکتی ہے
عمر اور ردا بھی اسکی حالت دیکھ کر بہت روئے
سارا نے دیکھا کہ تین ہفتے سے حزیفہ یونیورسٹی نہیں آ رہا اسے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا
وہ سوری کرنا چاہتی تھی
اس لئے ایک دن حزیفہ کے گھر گئ
اسکی ماں نے دیکھتے ہی دکھ بھری نگاہ سے دیکھا
آنٹی حزیفہ کہاں ہے ؟
تم ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے آیی ہو ؟
نہیں آنٹی میں تو معافی مانگنے آئی ہوں حزیفہ کدھر ہے پلیز بتایئں
چلی جاؤ لڑکی وہ یہاں نہیں ہے, لیکن سارا بضد رہی کہ وہ اسکا جان کر جائے گی
اسکی ماں نے کہا تو چلا پھر بتاتی ہوں کہاں ہے وہ
شبانہ اسے اپنے ساتھ پاگل خانے لے آئی, سارا کا دل بیٹھنے لگا کہ یہاں کیوں لائی ہیں
ادھر جا کر سارا کا بازو پکڑا اور اسے حزیفہ دکھایا
جو ایک جنگلے میں قید تھا پاؤں میں زنجیر تھی
وہ اکیلا باتیں کر رہا تھا کبھی ہنستا تو پھر خود ہی رو پڑتا
سارا یہ منظر دیکھ کر جیسے پاگل ہونے کو تھی وہ دو قدم پیچھے ہو گئ
آنسو بہتے جا رہے تھے
وہ حزیفہ کے پاس گئ, حزیفہ...؟
لیکن وہ کہاں سن رہا تھا وہ تو خود میں ہی مگن تھا
سارا نے روتے ہوئے کہا حزیفہ میں سوری کرنے آئی ہوں پلیز تم بولو کچھ میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں تمہارے ساتھ رہوں گی پلیز بات کرو مجھے پہچانو
وہ کہتی رہی لیکن حزیفہ اسے کسی وقت عجیب نظروں سے دیکھ لیتا پھر خود سے تالی بجاتے ہنسنے لگا
سارا شدت سے اسکا ہاتھ پکڑے رو دی
ختم شد
إرسال تعليق
إرسال تعليق